پڑھ کے نادے علی جو ہم نکلے
راہ میں مشکلوں کے دم نکلے
گھر سے مجلس کو جب قدم نکلے
یوں لگا ہم سوئے ارم نکلے
گھر سے مجلس کو جب قدم نکلے
یوںلگا ہم سوئے ارم نکلے
ہم سے لڑنے چلا تھا شہ کا عدو
ضربِ لعنت سے پیچ و خم نکلے
جب ولایت کا ذکر ہم نے کیا
آستینوں کے سب صنم نکلے
ذکرِ حیدر میں ڈوبتے ہی گئے
پھر ابھر کر سرِ ارم نکلے
یوں مسلماں ہوئے بہت اب تک
مثلِ سلماں بہت ہی کم نکلے
جو نہروان میں بتائے تھے
اس سے زائد نہ اس سے کم نکلے
بزمِ حیدر میں جو بھی آنے لگا
دل کے وہم و گماں بہم نکلے
ذکرِ غازی سنا مچلتے ہوئے
دیدۂ تر سے اشکِ غم نکلے
جس طرح تاج کوئی رکھتا ہے
تعزیہ سر پہ رکھ کے ہم نکلے
یہ دعا ہے ظہیر رضوی کی
مدحتِ مرتضی میں دم نکلے

0
8