اب نہِیں ہم سے کوئی درد سنبھالا جائے
گِن کے لے لو جی امانت کہ یہ بالا جائے
تُم کوئی حُکم کرو اور نہِیں ہو تعمِیل
حُکم تو حُکم، اِشارہ بھی نہ ٹالا جائے
جِس کو آدابِ محبّت کا نہِیں ہے احساس
ایسے گُستاخ کو محفل سے نِکالا جائے
کِتنا اچھّا ہے کِسی اور کا دُکھ اپنانا
ہم سے ہی روگ محبّت کا نہ پالا جائے
ہر طرف نُور کی برسات برس جاتی ہے
جونسی راہ بھی اُس رخ کا اُجالا جائے
آؤ اِک باب محبّت کا کریں ہم تحرِیر
اِقتباس اپنے رویّے سے نِکالا جائے
چاند تو گردِشِ حالات نے چِھینا ہے مِرا
اب کہِیں یاد کا ہاتھوں سے نہ ہالا جائے
جو بھی ہے اہلِ نظر وہ تو مِرے ساتھ رہے
کم نظر دُور، بہُت دُور اُچھالا جائے
یہ عجب ایک نیا طرز حکومت ہے میاں
مُنہ سے مزدُور کے بس مُنہ کا نِوالا جائے
کیا خبر وقت ہمیں لے کے چلے کون طرف
خُُود کو اب ایک نئے سانچے میں ڈھالا جائے
کوئی حِکمت ہی رکھیں، کوئی نِکالیں ترکِیب
دُور حسرتؔ سے مگر درد کی مالا جائے
رشید حسرتؔ

0
60