کانٹے آنگن میں اگانے کی ضرورت کیا تھی
یہ بتا دل کو لگانے کی ضرورت کیا تھی
تھا وہ مسرور کسی وصل کی حاجت کے بغیر
دلِ عاجز کو ستانے کی ضرورت کیا تھی
تُو تھا مخمور تخیل میں بسے محرم سے
غیر سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا تھی
ایک انمول جہاں تجھ میں بسا تھا تیرا
تجھ کو بے نام زمانے کی ضرورت کیا تھی
تو نے گر ترکِ تعلق ہی تھا کرنا مجھ سے
پھر کسی ایسے بہانے کی ضرورت کیا تھی
تجھ کو مسحور جو کرتی تھیں یہ بپھری لہریں
اپنے جذبوں کو سُلانے کی ضرورت کیا تھی
تجھے معلوم تھا دل اس کا ہے پتھر جیسا
پھر تری اس کو منانے کی ضرورت کیا تھی
تُو بھی سادہ دلی اپنی کو سنبھالے رکھتا
دل کو ہشیار بنانے کی ضرورت کیا تھی
کیوں تُو کرتا ہے ہمایوں یہ گلہ قسمت سے
آشیاں اپنا جلانے کی ضرورت کیا تھی
ہمایوں

0
13