| غزل نمبر 12 |
| مزاحیہ غزل |
| سوچیں جو درمیان سے ذاتیں نکال کر |
| ہر کوئی مارنے لگے لاتیں نکال کر |
| میرے کفن کے بند نہ باندھو ابھی مجھے |
| تھپڑ لگانے ہیں انہیں بانہیں نکال کر |
| کوئی بھی یہ نہ سوچے کہ یہ جھوٹ موٹ ہے |
| دیکھا ہے اس نے غصے سے آنکھیں نکال کر |
| کیا ظرف ہے جناب کا حیرت کی بات ہے |
| ہنستا ہے بار بار وہ باچھیں نکال کر |
| میں اس کے گھر سے بستہ اٹھا لایا ہوں سحر |
| وہ لے گیا تھا میری کتابیں نکال کر |
| شاعر زاہد سحر |
معلومات