| یہ بات ہے ورا کچھ وہم و گمان سے |
| رکھتے ہیں مجھ سے الفت وہ دل و جان سے |
| ہم سا کوئی بھی تم کو ملنا کہیں نہیں |
| ہم سے لگا لو بہتر ہو گا جہان سے |
| ان کو بتائیں جا کر کیوں اپنا حال دل |
| سنتے نہیں ہیں وہ تو دل سے نہ کان سے |
| لوگوں سے ہے سنا وہ کرتے ہیں مجھ سے پیار |
| مجھ سے نہیں ہیں کہتے کچھ وہ زبان سے |
| جو بات منہ سے نکلے ہوتی ہے وہ تو یوں |
| واپس نہ تیر ہو جو نکلے کمان سے |
| ملنا اگر ہو ہم سے بے خوف آ ملو |
| ڈرتے ہو تم بھی ایسے ان دشمنان سے |
| وہ قحط مخلصی ہے جینا ہے اب محال |
| انسان کو ہے خطرہ اپنی ہی جان سے |
| نازاں ہیں دلکشی پر نازاں بھی اس طرح |
| نکلا ہو جیسے کوئی ہیرا وہ کان سے |
| بیزار ہوں وہ تجھ سے ایسا نہیں جلال |
| رہتے اگرچہ ہیں وہ کچھ بد گمان سے |
معلومات