جب ذِکر ہوتا ہے دل ہی دل میں
اک بندہ روتا ہے دل ہی دل میں
کرنے لگے ہیں ہم یاد جب سے
اس کو سموتا ہے دل ہی دل میں
ہر وقت اپنی اور ہے بلاتا
وہ عشق بوتا ہے دل ہی دل میں
دل سے سنائی آواز کیا ہے
یہ کون دوتا ہے دل ہی دل میں
ہر ذرہ وحدت کی ہے گواہی
تو ڈھونڈ ہوتا ہے دل ہی دل میں
منزل کو نکلا ہوں تیری یارب
مجھ کو ڈبوتا ہے دل ہی دل میں
لمحہ بہ لمحہ لذت سے تیری
موتی پروتا ہے دل ہی دل میں
آنسو گرا کر دیکھو زرا تم
دل کو وہ دھوتا ہے دل ہی دل میں
یہ کس کی قدرت ہے کل جہاں پر
وہ اک جو ہوتا ہے دل ہی دل میں
ناراضگی جب ہوتی ہے تیری
دل بوجھ ڈھوتا ہے دل ہی دل میں
غفلت ہے تیری دنیا سے الفت
اے مَت ہِیں کھوتا ہے دل ہی دل میں
شرعاً صغیر ہو یا کبیرہ
لغزش چبھوتا ہے دل ہی دل میں
فاؔنی تو رب سے ڈر عاجزی کر
شیطان ہوتا ہے دل ہی دل میں

328