مقتل میں گھر ہے اسطرح اجڑا حسینؑ کا
آباد پھر نہ ہو سکا کنبہ حسینؑ کا
بے سر پڑے ہیں لاشے ہوا دن بھی یوں تمام
اسباب سارا لٹ گیا روتے ہیں تشنہ کام
زندہ نہ کوئی ہے بچا مارے گئے امام
اہلِ حرم سے اٹھ گیا سایہ حسینؑ کا
ضربیں لگاؤ سنتے تھے اہلِ حرم پکار
دل پاش پاش ہوتا تھا ہوتے تھے اشکبار
پھر تیغ و تیر سے کیا کفار نے تھا وار
زخموں سے بھر گیا تھا سرا پا حسینؑ کا
تیروں سے جسم شہ کا ہے سارا بھرا ہوا
لاکھوں نے آ کے جسم پہ نیزوں کو ہے گڑا
اے مومنو یہ کہنا غلط کیسے ہو بھلا
نیزوں پہ کربلا میں ہے لاشہ حسینؑ کا
اہلِ جفا نے شہ پہ قیامت یہ ڈھائی ہے
نالیں ہیں بدلی گھوڑوں کی تن پر چڑھائی ہے
پامال لاشہ کرنے کو امت یہ آئی ہے
تن پاش پاش کرتے ہیں اعدا حسینؑ کا
نیزے پہ سر بریدہ اٹھائےتھے اہلِ شر
روئے ستارے شامِ غریباں کو دیکھ کر
بیٹی پدر کو ڈھونڈ رہی تھی اِدھر اُدھر
مِلتا نہیں تھا سونے کو سینہ حسینؑ کا
صائب نبی کی آل کو باندھی گئی رسن
دشتِ بلا میں تھا پڑا زہرا کا گل بدن
خورشید دیں ہے رہ گیا کربل میں بے کفن
جلتی ہوئی زمیں پہ ہے لاشہ حسینؑ کا۔

0
86