نہ جانے کس حال سے گزر رہا ہوں
لاشہ غم زندگی کا لئے پھر رہا ہوں
رہے جھیلتے دکھ مسلسل بہت ہی
آزما نشانہ پر نت نئے تیر رہا ہوں
مرنا ہے تو ڈرنا اب کس بات سے
گھٹ کر جب کہ یوں مر رہا ہوں
مدھم ہے امید کی کرن مثل تنکا
ٹوٹا ہوا مگر باندھ کمر رہا ہوں
ڈھنگ نرالے اس ظالم دنیا کے ناصر
کھاتا ٹھوکریں گھوم دربدر رہا ہوں

0
67