دہر میں منور سویرا ہوا
جہاں سے رواں پھر اندھیرا ہوا
ثمر بار ہے ہر شجر آس کا
مسرت کا من میں بسیرا ہوا
ملی خاکِ بطحا کو جن سے ضیا
انہی کا مدینے میں ڈیرا ہوا
پڑا تھا زمانہ کڑی دھوپ میں
نبی آئے سایہ گھنیرا ہوا
غریبوں یتیموں اسیروں کو بھی
عطائے نبی نے ہے گھیرا ہوا
خطا کار نے بھی پکارا ہے گر
ملا دان اس کو بکھیرا ہوا
اے محمود آقا کرم بار ہیں
بلندی پہ جن کا پھریرا ہوا

60