| مجبور رہے تھے کچھ اپنی اُسی عادت سے |
| وہ باز نہیں آتے اظہار محبت سے |
| دھتکار و جھڑکنے سے بھی چُھوٹا نہیں پیچھا |
| ہر بار جَتایا خوش اسلوبی کو حرکت سے |
| برتاؤ رہا خندہ پیشانی بھرا کیسے |
| ششدر ہو گئے سارے احسان و شرافت سے |
| دشمن بھی تمہارے ہونگے دوست سبھی اک دن |
| باہم رہیں گر بھائی چارہ و اخوت سے |
| موقع نہیں دینا ہے نفرت کے پجاری کو |
| احساس جگائے تو شرمندہ ہو غیرت سے |
| ٹکراؤ نہیں ہو سکتا، نا ہوگی غلط فہمی |
| کمیوں کو سدھارینگے جب پیار و شفقت سے |
| میدان میں جو ناصؔر سر گرم عمل رہتے |
| پرجوش ہی پھر ہو استقبال عقیدت سے |
معلومات