سیراب تا کرے زمیں ، دریا بنا دیا
دستور ، آسمان سے اترا ، بنا دیا
جب یہ زمیں بہشت تھی بھیجا گیا یہاں
انساں نے دیکھ اس کو بھی ہے کیا بنا دیا
مقصد حیات کا تھا ، تعلّق خدا کے ساتھ
پھر کس نے اس کو حاصلِ دنیا بنا دیا
وہ چاہتا تھا اس سے محبّت کرے کوئی
خود کو محبّتوں کا ہی شیشہ بنا دیا
دنیا کو امتحان بنایا خدا نے تھا
پھر کس نے اس کو ایک تماشا بنا دیا
بادل اتار کر کہیں دریا بہا دیئے
سورج کہیں پہ روک کے صحرا بنا دیا
دل میں رکھی تلاش خود اپنی ہی ذات کی
پھر ساری کائنات کو چہرہ بنا دیا
طارقؔ بہانہ دیکھنے کا جب کیا تلاش
تب اُس نے اپنے سامنے پردہ بنا دیا

0
6