گزرا ہے اس ادا سے کچھ جاتا ہوا یہ سال بھی |
"دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی |
کتنی کٹھن رسائی تھی تیرے دیار تک مِری |
دیکھتے ہی جسے پُکارا تو اِسے نکال بھی |
ہم کو بلاؤ تم کسی روز کسی نئے نگر |
گر یہ نہیں درست آ سکتے ہو ساہی وال بھی |
تالا لگا زبان پر خواہشِ وصل بھی گئی |
پوچھے جو بزم غیر میں آپ ہمارا حال بھی |
وہ بھی زمانہ تھا تو آ جاتا تھا شب سے پیش تر |
کیسی یہ شب ہے آج آیا نہ ترا خیال بھی |
مجھ کو پتا ہے شوبیؔ سب حال مِرے ستاروں کا |
خلوتوں میں گزرنا ہے آتا ہوا یہ سال بھی |
شعیب شوبیؔ |
معلومات