خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر |
گویا ہوئے ہیں گونگے بھی دُشنام دیکھ کر |
بہرے بھی ناچنے لگے سُن کر نہ جانے کیا |
گنجوں نے سر منڈا لئے حجّام دیکھ کر |
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ |
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر |
سمجھے تھے جیسے اُن کو خدائی ہے مل گئی |
اب چپ ہیں سارے گردشِ ایّام دیکھ کر |
کس نے کیا رواں انہیں گردش میں چار سُو |
آتی نہیں سمجھ کسے اجرام دیکھ کر |
جس کو حقیر جان کے دھتکارتا تھا وہ |
حیران اب اسی کا ہے اکرام دیکھ کر |
یوں تو نہیں تھا شوق اسے شاعری کا پر |
ٹپکی کسی کی رال ہے انعام دیکھ کر |
عرصہ ہوا کہ اس سے ملاقات تھی ہوئی |
حیراں ہوا ہے آج وہ پیغام دیکھ کر |
شاعر نے کیا کہا انہیں اس سے غرض نہ تھی |
سُنتے رہے وہ پیٹھ کے بادام دیکھ کر |
ان کی امید پر تو لگے اوس پڑ گئی |
سمجھے تھے ہوں گے خوش اسے ناکام دیکھ کر |
کہتے ہیں انتخاب سے گزرے ہیں اب تو وہ |
شرمندہ کون ہو بھلا یہ کام دیکھ کر |
طارق فریبِ عشق سے کتنے ہوئے خراب |
پیچھے ہٹے نہیں مگر انجام دیکھ کر |
معلومات