دیارِ غیر میں گزرے دن اکثر یاد آتے ہیں |
تری چاہت میں کھائے سر میں پتھر یاد آتے ہیں |
کہاں وہ جنگ کا میدان، گھوڑے ہنہناتے تھے |
مقابل آئے وہ خوبانِ خود سر یاد آتے ہیں |
گئے برسات کے دن، وصل کی راتیں گئیں کب کی |
لہو روتے ہیں، تیرے گیسوئے تر یاد آتے ہیں |
اٹھانے کی قلم طاقت نہیں باقی بدن میں اب |
لکھے دیوانگی میں تھے جو دفتر، یاد آتے ہیں |
قلندر بخش جرأتؔ، ذوقؔ، سوداؔ، مصحفیؔ، تنہاؔ! |
ہمیں اپنے زمانے کے سخنور یاد آتے ہیں |
معلومات