دل لگانا بھی بھول تھا پہلے،
اب جو پتھر ہے پھول تھا پہلے۔
یہ نمائش سراب کی سی تھی،
میں اسے کب قبول تھا پہلے۔
اثر اس کو زرا نہیں ہوتا،
عرش کا نیل معقول تھا پہلے۔
ہو گیا ہے کیا جہاں میں اندھیر،
عشق میں کچھ اصول تھا پہلے۔
اس سے مل کر ہوا تھا کار آمد،
ورنہ رستوں کی دھول تھا پہلے۔

0
51