منسوب مجھ سے سارے فسانے اداس ہیں
غم زندگی کے اب تو اُٹھانے اداس ہیں
بچپن نگل لیا مرا فکرِ معاش نے
برسوں کے بچھڑے یار منانے اداس ہیں
ذکرِ شبِ وصال سے دہشت زدہ ہے دل
ہیں ہجر کے دن اور زمانے اداس ہیں
روٹھی ہے میری نیند میں جاگا ہوں رات بھر
شبِ ستم کے قِصّے سنانے اداس ہیں
جھپکی نہیں ہے آنکھ ترے انتظار میں
پلکوں پہ رکھے خواب سہانے اداس ہیں
سب بجھ گئے چراغ ترے انتظار میں
تنہائیوں میں دیپ جلانے اداس ہیں
بچھڑا ہے جب سے شہرِ خموشاں ہوا یہ دل
مدفون میرے دل میں خزانے اداس ہیں
اس تارِ عنکبوت نے وحشت زدہ کیا
تیرے بغیر میرے ٹِھکانے اداس ہیں
درویشؔ لوٹ آؤ جو ہونا تھا ہوچکا
تم اب جو کر رہے ہو بہانے اداس ہیں
(درویشؔ)

0
67