سوکھ کر جو کبھی جھڑا ہی نہیں
پھول ایسا کوئی کھلا ہی نہیں
گھر میں اپنے ہے آئینہ ہی نہیں
آجکل خود سے رابطہ ہی نہیں
پڑھ رہا ہوں قضاۓ عمری یوں
آ نہ جاۓ کہیں قضا ہی نہیں
عمر بھر جس پہ میں کہ چلتا رہا
تھا وہ منزل کا راستا ہی نہیں
آہ پہنچی نہ آسمان تلک
نالہ اپنا ہوا رسا ہی نہیں
اس طرح مل رہا ہے وہ ہم سے
جیسے پہلے کبھی ملا ہی نہیں
ختم بھی ہو گیا سفر میرا
میں تو گھر سے مگر چلا ہی نہیں
موت بھی آ گئی ذرا سے میں
دل ہمارا ابھی بھرا ہی نہیں
حادثے رونما ہوۓ ایسے
کچھ ہوا جیسے ماجرا ہی نہیں
ہجر کیا چیز ہے میں کیا جانوں
تم سے مل کر ہوا جدا ہی نہیں
توڑ کر رکھ دیا ہے دل اس پر
بن گۓ جیسے کچھ کیا ہی نہیں
وہ مرا درد کیا بھلا جانے
درد سے ہے جو آشنا ہی نہیں
بج رہے ہیں غموں کے ساز مگر
دل کے نغموں کی ہے صدا ہی نہیں
ظلم کرتے ہیں لوگ یوں جیسے
اس جہاں کا کوئی خدا ہی نہیں
جنگ کرنے کی ان سے ٹھانی تھی
پھر ہوا یوں کہ کچھ ہوا ہی نہیں

0
1