بس اتنا سا سر کا ماجرا ہے
یہ قدموں میں آپ کے پڑا ہے
رنجش ہے عتاب ہے جفا ہے
یہ ڈھب یہ روش یہ طور کیا ہے؟
سن لیجیے! ایک التجا ہے
تیری سنو؟ تجھ میں ایسا کیا ہے؟
رکھیے کسی شام اک ملاقات
ہاں ؟ واقعی؟ تیرا سر پھرا ہے؟
بس شکوۂِ ہجر ہے، تو بولے
اچھا ہے وہی جو بے گلہ ہے
بن عیشِ وصال مرتا ہوں میں
مر جا! اسی میں ترا بھلا ہے
قمست ہوئی بدمزاج ورنہ
مقصود نہ تھا یہ جو ملا ہے
اک بار میں پرتپاک تھا جو
ہر بار میں بد گماں ہوا ہے
ہے لذتِ کار اپنی اپنی
سو بے وفا کوئی باوفا ہے
جذبات کے غلبے میں بہک کر
میں نے ترا سب کہا، کیِا ہے
اک ذائقہ ہے زباں میں اب تک
اک ناف پیالے کا نشہ ہے
واعظ مری ٹوہ کو سرِ شب
تلخی میں برہنہ پا پھرا ہے
گزرا ہو جو اس کے بعد دل پر
ایسا کوئی حادثہ بھی کیا ہے
ناصح کی نصیحتیں ہیں اور میں
سمجھاتا ہے مجھ کو، ناسزا ہے
ہے طرزِ بے طرز آدمیت
درپیش عجب معاملہ ہے
انجام سے ابتدا ہے بدظن
تاریخ کا تلخ حادثہ ہے

0
73