| دشت ہی دشت ہے،فرات نہیں |
| دور تک پیاس ہے حیات نہیں |
| میرے شانوں پہ بار ہجرت ہے |
| مستقل گھر یہ کائنات نہیں |
| آسمانوں نے حوصلے بخشے |
| میرے سر پر کوئی قنات نہیں |
| جان پہچان ہے ہماری پر |
| پہلے جیسے تَعلُّقات نہیں |
| اپنے پاؤں سنبھال کے رکھنا |
| شہر ہے شہر یہ دیہات نہیں |
| اب کلیجے میں دم نہیں اتنا |
| اب نہیں، اور گزارشات نہیں |
| عشق لوہا نہیں پگھل جائے |
| عشق ہے عشق کوئی دھات نہیں |
| مفلسی کے شجر میں رہتے ہیں |
| ہم پرندوں کی ذات پات نہیں |
| میرے بچوں نے کچھ نہیں کھایا |
| گھر میں ارشد لوازمات نہیں |
| ارشد سُراغ |
معلومات