بجلیوں کی گونج سے جلنے لگا دہقاں کا من
دور صحرا میں اکیلے قیس کا تپتا بدن
بے ثمر ہونے لگے اجڑے ہوئے سر و سمن
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
دیکھ کر آہیں مری جلتا ہے رخ تصویر کا
کر سکے دعویٰ کہاں کوئی مری تنکیر کا
منتقم تھے یوں بھی وہ حیلہ کیا تقدیر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا
کیا ہؤا خورشید کو نکلا کئی راتوں کے بعد
لوٹ کر آئے ہیں اب کتنی مناجاتوں کے بعد
تلخیوں نے زور پکڑا رات کی باتوں کے بعد
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
جب تلک یہ گھر نہیں تھا در بدر اچھّا لگا
دیکھ کر اس کو اچانک سر بسر اچھّا لگا
پھول پر بیٹھی ہوئی تتلی کا پر اچھّا لگا
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھّا لگا

0
81