دیکھا اسے تو ہر کوئی شیدائی ہو گیا
حسنِ ازل کو دیکھ کے سودائی ہو گیا
میں خود بھی اپنے آپ کو پایا نہیں سنبھال
ہر راہگیر میرا تماشائی ہو گیا
مانا کہ اس کے وصل کی منزل بہت تھی دُور
اک رابطہ ہی باعثِ رُسوائی ہو گیا
دھڑکا تھا اس کو دیکھ کے دل زور زور سے
آہستہ اس کی دیکھ کے انگڑائی ہو گیا
چاہا جو اس نے ہم یہاں دنیا میں آگئے
مقصد ہمارا اس کی شناسائی ہو گیا
ہم اس کے عشق میں جو گرفتار ہو گئے
ہم سے حساب دیکھو اک اک پائی ہو گیا
طارق ہمارے وصل کے سامان ہو گئے
جو گیت گنگنا دیا شہنائی ہو گیا

0
19