ہر درد دل کا اپنے سنایا نہیں مجھے |
برباد ہو گیا وہ بتایا نہیں مجھے |
رہ دیکھنے کو اس نے دیے منتظر سے پل |
پر کہہ کے داستاں کو رلایا نہیں مجھے |
تارے سے گن رہا ہوں سیہ آسماں کے میں |
نا حق جدائیوں میں ستایا نہیں مجھے |
اک دے کے پیاس مجھ کو کوئی چاند رتجگا |
پھر ساتھ اس نے اپنے جلایا نہیں مجھے |
آنکھوں میں سب بسا کے ملے فرقتوں کے غم |
یادوں کے گلستاں میں سجایا نہیں مجھے |
شاہد ہزار عہد محبت کے باوجود |
تنہائیوں میں بھی کبھی گایا نہیں مجھے |
معلومات