| خواہش ہے گر کہ پاؤ شفاعت حضور کی |
| لازم ہے تیرے دل میں ہو چاہت حضور کی |
| محشر میں جب سوال کرے گا خدا تجھے |
| کام آۓ گی ترے بس اطاعت حضور کی |
| باطل ہی سر جھکا یا تھا بدر و حنین میں |
| غالب ہوئی وہاں پہ جماعت حضور کی |
| دریا ہو، کوہسار ہو، سورج ہو، یا ہو چاند |
| سب نے کیا قبول رسالت حضور کی |
| بے نور میری آنکھیں یہ ہوجائیں نور نور |
| کر پاؤں میں کبھی جو زیارت حضور کی |
| یونسؔ سکون قلب کی خواہش ہے گر تجھے |
| لب پر سجاۓ رکھ سدا مدحت حضور کی |
معلومات