کہاں کہاں پہ وفا کا نگر تلاش کیا
ارے یہ راز تو صحرا نے ہم پہ فاش کیا
وفا کا تھا وہ صلہ ، اور ایک ماں کی دعا
زمیں نے قدموں میں پیاسے کے دل خراش کیا
دکھایا راستہ اس نے جو اپنی قربت کا
وہیں کے ہو گئے اس رہ کو بودو باش کیا
جو اک نظر کے لئے دیکھنے کی خواہش کی
تو کوہِ طور کو جلوے نے پاش پاش کیا
میں زندہ ہو گیا پا کر اسے قریب اتنا
مجھے فراق نے اُس کے تھا جیسے لاش کیا
یہ کیا کِیا ہے کسی نے فقط مری خاطر
بدن ستاروں کا اس طرح قاش قاش کیا
کھڑے رہو گے تو ہو گا سفر کہاں طارق
جو چل پڑے ہو تو کیوں حوصلہ نراش کیا

7
285
جناب طارق صاحب، پہلے تو ایک اور خوبصورت غزل پر مبارکباد قبول فرمائیں.
البتہ آپ نے اپنی غزل میں "بود و باش" کو مذّکر باندھا ہے. بندہِ ناچیز کی دانست میں بود و باش مؤنث اسم ہے، ملاحظہ ہو میر تقی میر کا یہ مصرع:
مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بود و باش
اگر میں غلطی پر ہوں تو از راہِ کرم تصحیح فرما دیجیے گا، شکریہ

0
جی بہت بہتر آپ نے مثال بھی دے دی لیکن میں مزید دیکھ کر تصحیح کروں گا ویسے میرا خیال ھے کہ آپ صحیح فرماتے ہیں

0
جناب، ایسی غزل کے سامنے ذرا سی چوک کی کیا مثال، کیونکہ:
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کی بل چلے
(مرزا عظیم بیگ)

0
جزاک اللہ خوش رہیں

0
آج پروین شاکر کا ایک شعر سنا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

0
دکھایا راستہ اس نے جو اپنی قربت کا
جو چل پڑے ہیں تو خود اس نے ہی ضو پاش کیا

0
پسندیدگی کا شکریہ ناصر براہیم صاحب!

0