غزل
رنج و غم چھن لے کر تیری یاد آئی ہے
عشق کا کفن لے کر تیری یاد آئی ہے
اپنی ہجر کا لاشہ برہنہ تھا بے چارہ
وصل کا کفن لے کر تیری یاد آئی ہے
دید کا جنوں ہے یہ یا کہ ہے گماں میرا
تیرا ہی بدن لے کر تیری یاد آئی ہے
منتشر ذہن کو پھر چین سے سلانے کو
مرمری بدن لے کر تیری یاد آئی ہے
ہجر میں بھی سرگوشی سن رہا ہوں تیری میں
جادوئی سخن لے کر تیری یاد آئی ہے
کیا رقم کروں کشفی شعر کی عبارت کو
کاغذی بدن لے کر تیری یاد آئی
ڈاکٹر رضوان کشفی

0
5