مقصد بھی نہیں چھوڑا، منشا بھی نہیں بدلا
اوروں کی بھلائی کا جزبہ بھی نہیں بدلا
طوفان و حوادث میں بھی سینہ سپر تھے وہ
"کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا"
باتیں ہیں تکبر والی، چالیں اکڑ والی
حالات کے مارے ہیں، لہجہ بھی نہیں بدلا
لیتے نہیں عبرت ہم خمیازہ کشی سے کیوں؟
دھوکے بھی اُٹھائیں پر، جینا بھی نہیں بدلا
اظہار کریں ہم ناصؔر فہم و فراست کا
شطرنج کی چالوں کا مہرا بھی نہیں بدلا

0
49