اس کی خوشبو تو کو بہ کو ہے ابھی
سو مری اس سے گفتگو ہے ابھی
پہلے وہ صرف گھر پہ ملتی تھی
پر یہ کیا میرے چار سو ہے ابھی
اب نہ رستوں کا پوچھتا ہوں میں
اور نہ منزل کی جستجو ہے ابھی
اک اداسی کہ کھو گیا ہوں میں
اک خوشی یہ کہ مجھ میں تو ہے ابھی
جو ترا حق ہے، وقت ہے لے جا
زندگی میری خوب رو ہے ابھی
صرف تلقینِ صبر کرتا تھا
تف وہی شخص چارہ جو ہے ابھی
نور شیر

0
1
123
مطلع شاید دولخت ہو گیا۔ پانچویں شعر میں زندگی کا خوبرو ہونا ایک لغو بات معلوم ہوتی ہے۔