صحرا میں بے خودی کا وہ ذرّہ داغ ِ ہستی
گرداب سے جو اٹھ کر مجھ میں سما گئی ہے
پانی کی تیز لہریں تاروں کی نیم خوابی
شب کی اداۓ دلکش مجھ کو لبھا گئی ہے
یہ جھلملاتے انجم یہ بادِ ننگ و عریاں
دریائے بے خودی میں مجھ کو ڈبا گئی ہے
وہ نیم باز آنکھیں مستِ مۓ جوانی
اک ہی نظر میں دل کو میرے چرا گئی ہے
خاموش شب کے جگنوں یہ شور و غل کی تتلی
چنگاری عشق و مستی رگ رگ لگا گئی ہے
نورِ قمر کی لے میں وہ جھیل آبشاریں
دوشِ حسیں سے زلفیں صرصر اٹھا گئی ہے
خوشبوئے گل ببونا وہ قطرہ اوس و شبنم
راہِ شباب میں جو لاوا بچھا گئی ہے
بلبل کی سازِ ہستی کویل کی جانِ رگ نے
دل کے چمن میں غالب ؔ اک گل کھلا گئی ہے
فکرِ حصولِ جاناں غم عاشقی کا ثانی ؔ
ایامِ سرکشی میں بوڑھا بنا گئی ہے

57