صحرا میں بے خودی کا وہ ذرّہ داغ ِ ہستی |
گرداب سے جو اٹھ کر مجھ میں سما گئی ہے |
پانی کی تیز لہریں تاروں کی نیم خوابی |
شب کی اداۓ دلکش مجھ کو لبھا گئی ہے |
یہ جھلملاتے انجم یہ بادِ ننگ و عریاں |
دریائے بے خودی میں مجھ کو ڈبا گئی ہے |
وہ نیم باز آنکھیں مستِ مۓ جوانی |
اک ہی نظر میں دل کو میرے چرا گئی ہے |
خاموش شب کے جگنوں یہ شور و غل کی تتلی |
چنگاری عشق و مستی رگ رگ لگا گئی ہے |
نورِ قمر کی لے میں وہ جھیل آبشاریں |
دوشِ حسیں سے زلفیں صرصر اٹھا گئی ہے |
خوشبوئے گل ببونا وہ قطرہ اوس و شبنم |
راہِ شباب میں جو لاوا بچھا گئی ہے |
بلبل کی سازِ ہستی کویل کی جانِ رگ نے |
دل کے چمن میں غالب ؔ اک گل کھلا گئی ہے |
فکرِ حصولِ جاناں غم عاشقی کا ثانی ؔ |
ایامِ سرکشی میں بوڑھا بنا گئی ہے |
معلومات