| اپنے دل کے دام میں پھر آگئے |
| کتنے دھوکے کھا کے دھوکا کھا گئے |
| حشر کا میدان دل میں سج گیا |
| آپ کیا آئے قیامت ڈھا گئے |
| آس کی آنکھیں بھی اب پتھرا گئیں |
| یاد کے منظر بھی سب دھندلا گئے |
| چاند جب بامِ افق پر آگیا |
| سب ستارے دیکھ کر شرما گئے |
| ہر طرف مایوسیاں چھانے لگیں |
| لوگ ان حالات سے اکتا گئے |
| چاند تاروں کو لگی کس کی نظر |
| اور زمیں کے پھول کیوں مرجھا گئے |
| سب امیدیں یاسیت میں ڈھل گئیں |
| آس کے سارے چمن مرجھا گئے |
| آج ہی دل کو قرار آیا تھا اور |
| آج وہ پھر یاد ہم کو آ گئے |
| ان کو جانا تھا چلے جاتے مگر |
| دے کے دل کو کس لئے دھوکا گئے |
| صبح کی جب بھی دعا مانگی گئی |
| آسماں پر اور بادل چھا گئے |
| خود فریبو! کیسا دھوکا ہو گیا |
| پھول سے چہرے گلستاں کھا گئے |
| دو ستاروں کی ملن میں آج شب |
| تارے تاروں سے اگر ٹکرا گئے |
| جب چلے دنیا سے ہم ایسا لگا |
| آئے اور پلکوں کو جھپکایا گئے |
| رنگ و نسل و ذات میں بٹ کر حبیب |
| ہم تو اپنے آپ ہی کو کھا گئے |
معلومات