(2)
ہے تمنّا جو تری ، ہجر کی ماری تو نہیں
کس کو معلوم ہے یہ وصل کی باری تو نہیں
لکھ دیا کاتبِ تقدیر نے جو کب بدلے
ہے ازل سے ، نیا قانون یہ جاری تو نہیں
غور سے دیکھنا ، آئینے سے گر خوف آئے
نقش دل پر ہوئی تصویر ہماری تو نہیں
کیا کہا تم نے ، نہیں آئے نظر کچھ قابل
یوں نہیں ہو گئے اعمال یہ بھاری تو نہیں
کب کہا ہم نے کہ تقدیر بدل سکتے ہیں
لوحِ محفوظ پہ تحریر ہماری تو نہیں
بیٹھ کر کونے میں کیا خاک سمجھ آئے گی
تمُ نے دیکھی مری دنیا جو یہ ساری تو نہیں
طارق اس کو جو غلافوں میں رکھا، کیا حاصل
دیکھو انساں نے یہ تعلیم ، اتاری تو نہیں

0
28