جو کوءی تیری زُلف کے اسیر ہوتے ہیں
ہر دَور ہی میں قابلِ تعزیر ہوتے ہیں
جہاں غلامی در غلامی ہوتی ہے وہاں
اہل دانش کم، جاہل کثیر ہوتے ہیں
نفس کے قیدی ہوں یا خود پسند
وہ بد قسمت لاچار فقیر ہوتے ہیں
ذرا بچ کے رہنا شیخ زاہد سے
ترکش میں ان کے زہریلے تیر ہوتے ہیں
جہاں درندگی، کمینگی پھلتی پھولتی ہے
وہ بد نصیب معاشرے زوال پذیر ہوتے ہیں
ارباب اختیار کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا
غریب کے کندھوں پر منکر نکیر ہوتے ہیں
جو جب بھی بولتے ہوں منہ سے پھول جھڑتے ہوں
وہ پاک لوگ ہی تو بے نظیر ہوتے ہیں
ہر بات کا حساب ہوتا ہے حسنؔ
کہیں بھی جو الفاظ تحریر ہوتے ہیں

0
48