مزاحیہ غزل نمبر 24
(اس غزل کا ثواب حسرت موہانی کی روح کو پہنچے)
کچھ نہیں بھولا ہوں میں ہنسنا ہنسانا یاد ہے
دوستوں کو رات بھر جگتیں سنانا یاد ہے
غصے میں اس کا وہ میری انگلی پے چک کاٹنا
اور وہ میرا آسماں سر پہ اٹھانا یاد ہے
اس کا بیلن پھینک کر وہ آنکھ میری پھوڑنا
آج دن تک مجھ کو وہ اس کا نشانہ یاد ہے
میرا وہ کیلے کھا کر چھلکے سڑک پر پھینکنا
اور پھسل کر خود ہی اس پر مسکرانا یاد ہے
جوش میں آکر وہ سو کا نوٹ میرا پھاڑنا
بیٹھ کر پھر بعد میں آنسو بہانہ یاد ہے
نوچ لینا اس کو میرا ہلکی سی چٹکی سحر
اور جواباً پھر مجھے تھپڑ لگانا یاد ہے
شاعر زاہد الرحمن سحر

0
33