شعر کہنا مرا شعار نہیں
یوں سمجھنا نہ ہم کو پیار نہیں
تیری صورت پہ مخملی پردہ
ایسے پردے کا اعتبار نہیں
تیری تصویر دیکھتے رہنا
ہم کو اور کوئی کاروبار نہیں
تیری فرقت میں ہوں نہ میں مضطر
اتنا بھی خود پہ اختیار نہیں
نہ کروں توبہ تجھ کو پانے سے
اتنا بھی میں گناہ گار نہیں
تجھ سے پیوستہ میں رہوں تا عمر
اتنا وعدے کا پاس دار نہیں
چپ رہوں تیری بے وفائی پہ میں
اتنا بھی میں تو بردبار نہیں
تجھ کو کہتا ہوں ماہ جو ماہی
یہ حقیقت ہے استعار نہیں

18