کُچھ ان کہی باتوں کا نشہ |
سرِ شام سے ذہن و دل کو اپنی گرفت میں لے کر |
رات بھر گلیوں میں آوارگی کرواتا رہتا ہے |
میں رات بھر اپنے بستر پر پڑا |
شہر کی اندھی گلیوں کی خاک چھانتا رہتا ہوں |
کہ تمہاری ان کہئ کے جادُو سے |
میں اپنی نفی کرتا رہتا ہوں |
چاند اُفق پر سے مُجھ پر |
پھبتیاں کستا رہتا ہے |
ستارے اس کے ساتھ مل جاتے ہیں |
اور ہوا کو اشارہ مل جاتا ہے کہ |
وہ تمہاری سمت سے میری سمت |
یک بہ یک بہنے لگتی ہے |
مُجھے چُھوتی ہے تو تمہارے انفاس کی مہک |
مُجھے لٹھے کے تھان کی طرح کاٹتی چلی جاتی ہے |
میرئ روح پہ موجود ان گننت زخموں پر |
بلکل سپرٹ کا کام کرتی ہے |
اور اس مستانی ہوا میں اک عجیب طرح کی |
خُود سپُردگی ملتئ ہے |
جیسے تم اس پل |
اپنی کھڑکی میں کھڑی |
چاند کو مُجھ پر پھبتیاں کستے دیکھ کر |
کلس رہی ہو... |
ستاروں کو اپنی اُنگلی اُٹھا کر |
سرزنش کر رہی ہو |
اور ہوا سے کہہ رہی ہو |
کہ جاؤ اور اُسے چھُو کر بتاؤ کہ |
میری بانہیں |
میری دھڑکنیں |
میری کھٹی میٹھی سی سبھی خواہشیں |
تمہاری راہ تکتی ہیں |
کہ میں خُود سپُردگی کی چوٹی پر بیٹھی |
تمہارے راستے پر نگاھیں لگا کر بیٹھی ہوں |
اور |
ہوا... |
جانے کس موج میں ہے... |
کہ مُجھے تھپکیاں دیتی ہے اور |
ان کہئ کے نشے میں بھگوئے جاتی ہے |
فیصل ملک |
معلومات