دکھوں کو اپنے سخن میں اتار لیتے ہیں
یوں بھی کبھی انہیں چھپ کے پکار لیتے ہیں
یقین دیتے ہیں کھو جب کبھی بھی ہم خود پر
دعائیں مانگ کے چہرہ سنوار لیتے ہیں
گئے دنوں کی تھکن ہے ہمارے لہجے میں
کہاں سے جانے اداسی ادھار لیتے ہیں
رہے ہیں پردہ نشینوں کے درمیاں ایسے
کہ ان پہ وار کے جاں ہم قرار لیتے ہیں
خزاں نہ آئے کبھی بھی گلستاں میں گل پر
دے کے خوشی کوئی اپنی بہار لیتے ہیں
فریب کھاتے ہیں یوں بھی چپکے سے اکثر
لٹا کے حصے کے ارمان خار لیتے ہیں
کسی وجود میں موجود ہم ہیں شاہد یوں
سمجھ کے غم تری مرضی سہار لیتے ہیں

0
31