| کچھ ہو خزاں بہار لگا ئیں گے قہقہے |
| کر کر کے غم شمار لگا ئیں گے قہقہے |
| پیغام لاۓ گا جو فر شتہ بھی موت کا |
| تک کر اسے ہزار لگا ئیں گے قہقہے |
| غلبہ دکھوں کا ہو کیا اداسی میں کاٹ دیں |
| دل ہوگا بے قرار لگا ئیں گے قہقہے |
| مصروف اس قدر ہیں کہ ہنستے نہیں ہیں اب |
| جب سب ملیں گے یار لگا ئیں گے قہقہے |
| اپنی حماقتوں پہ جب ہنسیں گے لوگ تو |
| ہم اور زور دار لگا ئیں گے قہقہے |
| روئیں گے اس غزل کوکبھی پڑھ کے چار پانچ |
| کچھ لوگ تین چار لگا ئیں گے قہقہے |
| ہادیؔ یہ سوچ کر تو ہنر ضائع کر دیا |
| دنیا ہنسے گی, یار لگا ئیں گے قہقہے |
معلومات