| جب زیارت کو تریے روضے کا منظر مل گیا | 
| تشنہ انکھوں کو مری جیسے سمندر مل گیا | 
| آنکھ تشنہ تھیں لگا جیسے سمندر میل گیا | 
| جب جبیں کو سید سجاد كادر مل گیا | 
| ذرّہ ناچیز کو رفعت کا عنبر میل گیا | 
| پائنتی پہنچے جو مرقد کے ہمیں ایسا لگا | 
| بوسا لینے کے لیے بس پائے سرور میل گیا | 
| فکر کی شاخوں پہ گل کھیلنے لگے مضمون کے | 
| مدح عابد کیلئے جب مصرعے تر میل گیا | 
| میکدہ میں بٹ رہی تھی مے ولا کی اور مجھے | 
| سید سجاد کی مدحت کا ساغر مل گیا | 
| گوہر عرفان کی دولت مرے ہاتھ آ گئی | 
| ساغرِ مدحت ملا عرفاں کا ساگر مل گیا | 
| استخارہ ہم نے جب سجادیہ سے کر لیا | 
| رب سے ہم کو فیصلہ بہتر سے بہتر مل گی | 
| مل نہ پایا بعدِ حکمِ مرتضیٰ سے اج تک | 
| جو مزہ سورج کو مغرب سے ابھر کر مل گیا | 
| سوچ کر مظلومیِٔ آل عبا بے چین تھا | 
| اک سکوں سا دل کو میرے لعن پڑھ کر مل گیا | 
| صبح عاشورہ عجب تھی حر کے دل کی کیفیت | 
| اس طرح جیسے پتہ جنت کا کھو کر مل گیا | 
| جو ولایت کے مخالف کے لیے مخصوص تھا | 
| حارث نعمان کو خم میں وہ کنکر مل گیا | 
| ہمسر حیدر تو کیا/ کجا تم یہ بھی کہہ سکتے نہیں | 
| بوذر و سلمان و قمبر کے برابر مل گیا | 
| نعمتیں بے شک ہیں سب رب کی مگر پایا نہیں | 
| جو تبرک کا مزہ مجلس کی کھاکر مل گیا | 
| ورد کوثر کر رہا تھا حوض کوثر پر ظہیر | 
| مالک کوثر کے ہاتھوں جام کوثر مل گیا | 
    
معلومات