بک گئے دیوار و در تو سب نے پوچھا کیا ہؤا
اس طرح میرے سبھی رشتوں کا پردہ وا ہؤا
تین دن پہلے بھی تھے اور چار اس کے بعد کے
اس طرح ان سے ملے کو ہم نوا ہفتہ ہؤا
بھوک کے ہاتھوں کئی معصوم جانیں چل بسیں
نہ کسی نے آہ کھینچی نہ کہیں سکتہ ہؤا
راز پردے میں ہے جب تک من و تُو کے بیچ ہے
تیسرے تک آگیا تو آتے ہی افشا ہؤا
سب رقیبوں کو بلا لو مجھ کو بھی سمجھو رقیب
اب خدا لگتی کہو کیا کوئی مجھ جیسا ہؤا
خالہ کی بیٹی کے برخوردار کی ماما کی ماں
مَیں نے ظاہر لکھ دیا امید جو رشتہ ہؤا
قائدِ اعظم کی دھرتی کا تقدّس پائمال
رہنماؤں کی جبیں کا بال نہ بیکا ہؤا
کٹ گئی ہے عمرِ رفتہ مغربی تہذیب میں
بات ہے آدھی صدی کی لگتا ہے لمحہ ہؤا
اس غزل کے شعر پر شاید ہو مجموعے کا نام
اللہ جانے کب کہاں سچّا مرا دعویٰ ہؤا
جب کبھی اچھّا ردیف و قافیہ مِل جائے تو
پھر تری خوبی نہیں امید یہ تحفہ ہؤا

58