پھول چِھنتے ہیں، بہاروں کی صدا باقی نہیں
تو جو رُوٹھا ہے، چمن میں کچھ ضیا باقی نہیں
شاخ پر بیٹھا تھا کل تک جو پرندہ نغمہ گر
اب وہی شاخیں بھی کہتی ہیں،صدا باقی نہیں
تُو گیا تو خشک ہو کر جھَر گئے سب سبز خواب
ایک پَتّا تک لبوں پر مدعا باقی نہیں
رنگِ گُل تھا، زخم جیسے ہنستا ہو ہر آرزو
اب وہ رنگ و نکہتوں کی بھی بقا باقی نہیں
زخم جو کانٹوں سے پائے، دل نے سہہ کر بھی کہا
یہ جفا ہی ہے، مگر اُس پر خفا باقی نہیں
چاہ کے دریا میں ڈوبی ہے دُعا کی ہر صدا
اب صدا ہے، پر وہ پہلی التجا باقی نہیں
حیدرؔ اب وہ کلیوں ،پھولوں کی ادا باقی نہیں
اب چمن تو ہے، مگر وہ دلربا باقی نہیں

9