تیرا مرا اتحاد بھی ہو نہ سکا
دل اتنا تو با مُراد بھی ہو نہ سکا
تاریخ داں بھی سبھی ہیں خاموش یہاں
تجھ سا کوئی تیرے بعد بھی ہو نہ سکا
اپنے تئیں کوشش کی سبھی تم نے مگر
یہ بات الگ میں شاد بھی ہو نہ سکا
پابند سماجی رُتبے کا ہو گیا وہ
سو عشق کی روئداد بھی ہو نہ سکا
گر اُس نے خریدا ہے مرا آشیاں یہ
دل اُس کی تو جائداد بھی ہو نہ سکا
ہیں ایک لڑی میں گر پِروئے ہوئے سب
مابین کِہ و مِہ تضاد بھی ہو نہ سکا
گو مِؔہر وہ کرتے رہے ہیں بیخ کنی
حربہ وجہِ عِناد بھی ہو نہ سکا
--------------***--------------

0
84