دم بخود حیران و ششدر تھے فرشتے چار سو
عرش کی جانب ہے کیسا شور و غوغا ہاۓ ہو
سوچتے ہیں آخرش کس دل کی ہے آہ و فغاں
ہوتے ہیں سارے فرشتے عرش کی جانب رواں
دیکھتے ہیں صورتِ سیماب قلبِ ناتواں
جل رہا ہے سوزشِ غم سے وہاں کوئی جواں
دیکھ کر نظارۂ دل سوز محوِ گفتگو
کہہ رہے تھے کتنے غم ہیں اس کے سینے میں نہاں
کون ہے یہ جس کے دم سے عرش پہ بھونچال ہے
کانپتی ہے یہ زمیں گرنے کو ہے یہ آسماں
کون ہے یہ جس کی چشمِ مضطرب نعرہ فگن
قطرۂ نیساں ہیں جس کے شعلۂ آتش فشاں
دردِ دل سے چور تھا اک طالبِ دینِ مبیں
اشک کا دریا رواں تھا لڑکھڑاتی تھی زباں
ایک ننھا سا فرشتہ درد کی گہرائی میں
کہہ رہا تھا اپنے رب سے عالمِ تنہائی میں
اے وہ جس سے عالم امکاں میں کچھ پنہاں نہیں
لے خبر اس کی بھی جس کا ہے نہ کوئی ہم نشیں
اشک ریزاں ہیں نگاہیں لرزا بر اندام جسم
مضطرب ہے روح میری قلب آزردہ حزیں
کیوں قیودِ روز و شب میں باندھ کر رکھا مجھے
خدمتِ دیں گر مری قسمت میں اے مولی نہیں
کیا محمدؐ کی وفاؤں کا یہی انعام دوں
ترک کردوں رسمِ دیرینہ روایاتِ امیںﷺ
روزِ محشر سرخرو ہوں ، ہو مرا بھی کچھ مقام
خالدؓ و حیدرؓ کی صف میں کیا میں اس قابل نہیں
کررہے ہیں آشنا دنیا کی لذت سے مجھے
کہہ رہے ہیں چھوڑ دوں میں آج سے تعلیمِ دیں
غربت و افلاس کا مارا ہوا انسان ہوں
ہے یہی میری خطا کہ طالبِ ایمان ہوں
تنگ دامانی رفو کر کردے کوئی انتظام
تا نہ ہو مجروح نفس اے قابلِ صد احترام
میرے آگے سرنگوں ہوں دہر کے سرمایہ دار
دے زمانے میں مجھے افلاک سے اعلی مقام
قادرِ مطلق تری قدرت میں سب آسان ہے
با مسمی اسم کردے کر اماموں کے امام
دین و دنیا ملک و ملت سب مرے قبضے میں ہو
دہر میں چمکے ستاروں کی طرح نقشِ دوام
کر زمانے میں مثالِ ماہِ تاباں کہ مری
بزمِ ہستی کے بنا ہو بزمِ انجم نا تمام
خدمتِ دینِ محمد سے رہوں میں سرخرو
بعد مرنے کے رہوں دونوں جہاں میں نیک نام
گلشنِ ہستی میں مانندِ کلی شاداں رہوں
شوخ ، نظروں میں رہوں ہردم قرارِ جاں رہوں
صورتِ گل مجھ کو جو پیدا کیا پرور دگار
چاہیے فصلِ خزاں میں بھی مجھے زیبِ بہار
مال و زر بھی چاہیے مجھ کو نظامِ کائنات
ساری دنیا سرنگوں ہو ، کر مجھے یوں باوقار
بحرِ عالم میں مجھے وہ گوہرِ نایاب کر
جس کو پانے کے لیے ہو بزمِ عالم بے قرار
شمعِ محفل کر کے مجھ میں وہ کشش پیدا کرے
مضطرب پروانوں کو صدیوں ہو میرا انتظار
شامِ غم سے ہوں پریشاں صبح کی امید میں
کب تلک سوزاں رہوں گا کب تلک میں دل فگار
میری ہستی کو بنا دے بزمِ عالم میں مثال
دستِ قدرت کا نمونہ کر دے شاہی شاہکار
آہ لیکن اس دلِ بےتاب کی سنتا ہے کون
سن کے فریادِ غریبی اب یہاں روتا ہے کون
درسِ خودداری سے آزادی کہاں پاتا ہے یہ
تیری آغوشِ محبت میں چلا آتا ہے یہ
(شاہؔی تخیلات)
ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

1
36
. طـالبِ علـم

ایک ننھا سا فرشتہ درد کی گہرائی میں
کہہ رہا تھا اپنے رب سے عالمِ تنہائی میں

Abu Umama Shah Arariawy شاہؔی تخیـُلات

ایک طالب علم کو زمانۂ طالب علمی میں کس قدر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، سنگ دل ، آہن پوش مصیبتوں سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہوتا ہے ، شب و روز کے دل سوز رنج و غم کے ساتھ زور آزمائی دوشِ ناتواں پر کس قدر بارِ گراں محسوس ہوتی ہے اس کا من و عن اور صحیح اندازہ وہی مردِ بامراد لگا سکتا ہے جو خود بھی اس خاردار وادی سے گذرا ہو
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دور انسانی زندگی کا سب سے سنہرا دور ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پے در پے آنے والی مصیبت اس کی تمام تر رعنائی، طلائی اور سنہرے پن کو اپنے ساتھ کہیں دور لے جاتی ہے کہ جہاں تک ایک طالب علم کی رسائی ممکن نہیں ہوتی
ایک امید کی کرن جو اس کے دل کو جگمگاۓ رکھتی ہے وہ بھی اس وقت ماند پڑ جاتی ہے کہ جب گھر والوں کی جانب سے بھی کچھ فرمائش اور خواہشات کے صدقے طفیل مسقبل کے تمام تر راہ مسدود نظر آتے ہیں
اس وقت ایک ہی دربار ہوتا ہے جو اس کے حوصلوں کو ایڑ لگاتا ہے اور وہ دلِ رنجور درد و غم سے چور شکوہ و گلہ سے معمور کس ناز و انداز سے اس مقدس بارگاہ میں گریہ کناں ہوتا ہے کہ فرشتے بھی اس طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ، عرش الٰہی بھی جھوم اٹھتا ہے ،
(اپنی نظم کا اولین مصداق شاعر شاہیؔ )

. طالبِ علم

0