| رہ جائیں نہ کیوں تیز ہواؤں سے بکھر کے |
| ہم لوگ تو ٹوٹے ہوئے پتے ہیں شجر کے |
| جس روز سے ہم نے درِ اغیار کو چوما |
| اس دن سے رہے ہم نہ کسی گھاٹ نہ گھر کے |
| جب آپ کی ہم پر نہ توجہ نہ عنایت |
| پھر خود ہی کہیں جائیں کدھر بن کے سنور کے |
| ہاں مصلحتاً سب یہاں چپ چاپ ہیں لیکن |
| ہم وہ ہیں جو قائل نہ کسی خوف نہ ڈر کے |
| خوش ہیں تری راہوں میں پڑے ہیں، زہِ قسمت |
| پتھر ہی سہی ہیں ترے رستے ترے در کے |
| کیا بات ہے سب شہر مرا جائے ہے، تجھ سے |
| ہم بھی ذرا دیکھیں تو محبت کبھی کر کے |
| اک یہ بھی مرے دیس میں نفرت کا سبب ہے |
| ہم لوگ اِدھر کے ہیں کہو تم ہو کدھر کے |
| کس حال میں پستی کے مکیں ہیں، کبھی دیکھو |
| فرصت جو ملے تم کو بلندی سے اتر کے |
| الزام، وہ جن کے نہ ثبوت اور نہ شواہد |
| جیسے ہوں پرندے بنا سر پیر کے پر کے |
| کیا دور تھا جب ماؤں کا بہنوں کا دوپٹہ |
| ممکن ہی نہیں تھا کہ سروں سے ذرا سرکے |
| یہ کیا کہ ستارے تو سبھی گل ہوئے پھر کیوں |
| آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں سحر کے |
| کہتے ہیں کسے زندہ و جاوید حبیب آپ |
| دیکھیں تو ذرا راہ وفا میں کبھی مر کے |
معلومات