اس کی آنکھوں پر جو ہالے پڑ گئے
اس کے پیچھے ، غم جو پالے ، پڑ گئے
ہم تو گرویدہ ہوئے اس حسن کے
آنکھ میں دشمن کی جالے پڑ گئے
بے تکلّف آ گئے تھے اس کے در
جو جہاں پر اس نے ڈالے ، پڑ گئے
چل پڑے تھے کہکشاؤں کی طرف
دودھیا رستے پہ چھالے پڑ گئے
ڈوبنے سے کیا بچاتے وہ ہمیں
جان کے ان کو ہی لالے پڑ گئے
کچھ تو کرتے بات وہ انصاف کی
کیوں زباں پر سب کی تالے پڑ گئے
جھوٹ پر پلتے رہے جو عمر بھر
ان کے اب سچوں سے پالے پڑ گئے
جب ہوئے ظاہر عمل ، ان کے گلے
ان کے ہی کرتوت کالے پڑ گئے
بات کیا سنتے ، سماعت کے لئے
کان میں ان کے ہیں آلے پڑ گئے
وہ سزا دیتا ہمیں ، پر راہ میں
جو کئے ہم نے تھے نالے ، پڑ گئے
کیا مبارک تھا سفر طارق جہاں
لے کے پتھر پیچھے بالے پڑ گئے

60