اے جلوہِ حسن تو کیا جانے کیا چیز محبت ہوتی ہے
جب خونِ جگر کے جلنے سے آنکھوں میں حرارت ہوتی ہے
جب یہ دل اس کے خیالوں میں رک رک کر ایسے چلتا ہے
جب روحِ بدن میں قربت سے شبنم سی لطافت ہوتی ہے
کوئ جب اسکا ذکر کرے پلکوں سے موتی جھڑتے ہیں
خوابوں میں اس کو جب دیکھوں آنکھوں میں شرارت ہوتی ہے
ارمانوں کے صحرا میں جب دیدار کی ٹھنڈی اوس پڑے
جب لمحہ بھر کو ملنے سے صدیوں کی ضیافت ہوتی ہے
جب راتیں لمبی ہوجائیں اور آنکھوں میں ہی رات کٹے
خوابوں میں ان سے مل جائیں بس ایسی ہی حسرت ہوتی ہے
جب نا ملنے کے یقین پہ بھی دل یونہی رستہ دیکھا کرے
آنکھوں میں نمی، ہونٹوں پہ ہنسی، بس ایسی ہی حالت ہوتی ہے

46