وبا سے بچ گئے تو یہ جدائی مار ڈالے گی
جلا وطنی میں گھر تک نارسائی مار ڈالے گی
اجل سے تو مسیحا پھر بھی کچھ امیدِ مہلت ہے
مگر بیمار کو جھوٹی صفائی مار ڈالے گی
تراشے ان پروں سے یہ کہاں تک کر لے گا پرواز ؟
پرندے کو قفس سے اب رہائی مار ڈالے گی
حوادث سے بھی بچ ہی جائیں ہم شائد کسی صورت
یوں لیکن یار تیری کج ادائی مار ڈالے گی
نہیں ہے زور جن کا دل پہ اپنے گھر سے مت نکلیں
وبائے عشق ہے یہ جس پہ آئی مار ڈالے گی

0
231