ایک شخص آج ملا شوق سفر میں، مجھ کو۔۔ |
ایک انجان سا شخص |
ایک ویران سا شخص |
رنج کی تپتی ہوئی دھوپ سے دو چار |
دشت در دشت بھٹکتا ہوا لاچار |
میں نے جب غور کیا، دشت میں ہے وہ بھی میں بھی۔۔ |
تو میں نے غور سے جانا |
مبتلا ہے کسی وحشت میں وہ بھی |
میری ہی طرح |
دب گیا ہے کسی دہشت میں وہ بھی |
میری ہی طرح |
پھر بھی دریافت کی میں نے |
وجۂِ عالمِ ہا ہو۔۔ |
تو جواب آیا سسکتے ہوئے ہونٹوں سے مجھے |
ایک زندان ہے یہ دشتِ جنوں بھی |
رفع ہے جس میں خوشی اور سکوں بھی |
دور رہیو، میں فقط رنج ہوں، ہوں ایک وبال |
میرے دل کے سبھی اوراق پہ ہے گردِ ملال |
سن کے میں ہو گیا خاموش |
رنج میں وہ بھی تھا مدہوش |
میں اسے دیکھ رہا تھا |
دیر تک میں نے یہ سوچا۔۔ |
حیف ہر شخص کو دنیا نے ہے نوچا۔۔ |
ایک کیفیتِ دل جو تھی عجب کتنی عجب |
پھر میں نے خود سے کہا |
یہ تو اک دشتِ جنوں ہے |
یہاں ہر شخص ستایا ہوا ہے |
ہر کسی نے یہاں پر |
خود خودی کو جلایا ہوا ہے |
چل کہ اے زیبؔ سفر باقی ہے |
پھر اچانک سے پلٹ کر |
مجھے اس نے یوں کہا |
ویسے پیارے |
لگ رہا ہے کہ ہو تم بھی بے قرار |
تمہیں شہزادے کیا کس نے خوار؟ |
بس یہ الفاظ تھے اور |
یوں لگا مجھ کو کہ جیسے |
کسی ٹوٹے ہوۓ سے تارے کو |
کسی ٹوٹے ہوۓ سے تارے نے |
اک طرح تھام لیا ہو |
کسی انجان خوشی نے |
بس مرا نام لیا ہو |
پھر ہوا یوں کہ زباں بند تھی اور ہم |
محوِ گفتار تھے چشمِ تر سے |
غم نمو دار تھے چشمِ تر سے |
انتظار اس کو بھی تھا شاید |
کسی کے آنے کا |
کوئی انجان سا غم خوار |
کم کرے اس کا جو آزار |
پھر کہ چپ توڑ کے اس نے یہ کہا |
دیکھتے ہوں یوں کیا؟ |
پاس آؤ، یہ تمہارے رخ پر |
چھینٹے ہیں ، جیسے کسی غم کی سیاہی ہے یہ |
تم کوئی اہلِ سخن ہو؟ |
آہ! ہاں اہلِ سخن ہوں شاید |
خود خودی پر |
طعنہ زن ہوں شاید |
کوئی تو بات ہے تم مجھ کو بتاؤ |
کیا حکایت ہے غمِ دل کی؟ سناؤ |
جو حکایت ہے غمِ دل کی، سناؤں کیسے |
بس کہ میں دل کی اذیت کو گھٹاؤں کیسے؟ |
گردشیں دل کی اذیت کو مٹا دیں گی |
خاک میں زخمِ غمِ دل کو ملا دیں گی |
ہاں مگر ایک خلش! دل میں جو رہ جاتی ہے |
روحِ انساں وہ خلش بھی کہاں سہہ پاتی ہے |
آخرش کون ہے وہ؟ |
جو تمہیں خوار کیے جاتی ہے |
یوں تو وہ خواہشِ دل ہے |
یعنی اک خواہشِ لاحاصل ہے |
اور اگر حاصلِ لاحاصل بھی |
حاصلِ دل ہو کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے |
حاصلِ خواہشِ دل، حاصلِ وحشت ہے صرف |
ایک وحشت! ایک اذیت |
حیف پھر بھی |
کبھی خواہش سے نہ باز آیا دلِ بیغیرت |
خیر قسمت میں لکھا تھا سو یہ ہونا تھا |
آپ کچھ اپنی بتائیں |
داستانِ غمِ دل جو ہے، سنائیں |
کیا کہیں جانِ وفا، جانِ من |
بس کہ بدظن ہیں بہت ہی بدظن |
ایک سفاک درندہ تھا کہ جس کے ہاتھوں |
ہم بہت خوار ہوۓ |
اس سے بھی، خود سے بھی، بیزار ہوۓ |
اب کہ دل چاہتا ہے |
شدتِ غم کو کوئی کم کر دے |
پڑھ کے کچھ مجھ پہ کوئی دم کر دے |
کچھ عجبِ طرزِ جوابات ہے، حیرت ہے مجھے |
آپ بھی اہلِ سخن ہو؟ |
ہاں میں بھی اہلِ سخن ہوں شاید |
آپ کی طرح |
خود خودی پر |
طعنہ زن ہوں شاید |
یہ عجب بات ہے ویسے |
ہوں میں بھی اہلِ سخن، اہلِ غم |
دم بہ دم آپ کو بھی میری طرح کے ہیں الم |
کیوں نہ پھر دل کی اذیت کو مٹایا جاۓ |
ایک انجان جزیرے پہ چلے جائیں ہم |
کہ جہاں غم کا نہ کوئی غم ہو |
آپ کا سایۂِ زلفِ خم ہو |
کہ جہاں کوئی ستم ہو نہ ہی چشمِ نم ہو |
کہ جہاں کوئی خلش دل میں نہ کوئی خم ہو |
کیوں نہیں، کیوں نہیں اے نامعلوم |
تو چلو پاؤں کو ہم عیش کرا دیں |
تو چلو خاک میں غم دل کے ملا دیں |
قہقہ مار کے ہم اہلِ سخن |
بس یہ کہتے ہوۓ اٹھے |
ہو چکے اہلِ جنوں دشتِ جنوں میں برباد |
حیف صد حیف کہ ماری گئی ان کی فریاد |
معلومات