دل میں اک درد کی لذّت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور چہرے پہ بجھارت کے سوا کچھ بھی نہیں
سرِمقتل وہ جو خود چل کے گیا ہے لوگو
جُرم اس کا تو محبّت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم عبث کہتے رہے تیرے لئے جیتے ہیں
زندگی تیری عنایت کے سوا کچھ بھی نہیں
اُس نے تیرے لئے تسخیر کیا دنیا کو
اور ترے پاس شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں
وہ جو تاریخ سے دیتا ہے مثالیں تو کہو
داستاں ہے یہ حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں
چھوڑ کر دنیا یہ دولت تو ملا کرتی ہے
تم جو کہتے ہو ولایت کے سوا کچھ بھی نہیں
میں نے سوچا تھا محبّت بھی ملے گی طارق
پر ترے پاس ریاضت کے سوا کچھ بھی نہیں

0
18