دل میں اک درد کی لذّت کے سوا کچھ بھی نہیں |
اور چہرے پہ بجھارت کے سوا کچھ بھی نہیں |
سرِمقتل وہ جو خود چل کے گیا ہے لوگو |
جُرم اس کا تو محبّت کے سوا کچھ بھی نہیں |
ہم عبث کہتے رہے تیرے لئے جیتے ہیں |
زندگی تیری عنایت کے سوا کچھ بھی نہیں |
اُس نے تیرے لئے تسخیر کیا دنیا کو |
اور ترے پاس شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں |
وہ جو تاریخ سے دیتا ہے مثالیں تو کہو |
داستاں ہے یہ حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں |
چھوڑ کر دنیا یہ دولت تو ملا کرتی ہے |
تم جو کہتے ہو ولایت کے سوا کچھ بھی نہیں |
میں نے سوچا تھا محبّت بھی ملے گی طارق |
پر ترے پاس ریاضت کے سوا کچھ بھی نہیں |
معلومات