اپنی انا میں رہتے ہیں ہم گوشہ گیر لوگ
کچھ لوگ کہتے ہیں ہمیں مردہ ضمیر لوگ
گزرے شریف زادی کہاں سے بتا ئیے
بیٹھے ہیں اس کی تاک میں کتنے شریر لوگ
عبدالحمیدؔ کہتے ہیں لازم ہے احتیاط
ہوتے ہیں آج کل یہاں منکر نکیر لوگ
پیغام و اطلاع رسانی کے واسطے
ژولیدگی اٹھاتے ہیں کتنی سفیر لوگ
ہر سمت شہر میں ہیں یہ کیسی اداسیاں
پڑھنے لگے ہیں غالباً دیوانِ میرؔ لوگ
روشن شبِ حیات تھی جن سے جنابِ دل
آخر کہاں چلے گئے وہ دل پذیر لوگ
حسانؔ اب سنبھل کے اٹھانا ہر اک قدم
اب زندگی سے جا چکے سب دست گیر لوگ

0
4