فلک سے گم ہے تارے، چاند بھی حیران ہے مرشد
ٹپکتی روشنی سے لگتا نم مژگان ہے مرشد
مرے الفاظ تو دیکھیں، مرے ہونٹوں کا ڈر کیا ہے؟
سنبھالیں میرے جملوں کو، بڑے نادان ہے مرشد
نچوڑے خواب ہیں سارے، جو میرے، تیرے، سب کے تھے
پسینوں سے بجھانی پیاس اب آسان ہے مرشد
چراغاں تو نہیں ممکن، میں خود ہی جل کے بیٹھوں گا
بنے ہیں آج میرے گھر میرے مہمان ہے مرشد
یہاں سب بہرے ہیں اب چیخنا کس کام کا مرشد
یہ رائیگان ہے مرشد، کہ رائیگان ہے مرشد

0
64