کتنے معصوموں کو دی تم نے سزا یاد نہیں
ظلم جی بھر کے نہتّوں پہ کِیا یاد نہیں
پا بہ زنجیر کیا جبر و تشدّد کر کے
ظلم کیا خُوں کے بہانے کے سوا یاد نہیں
دھمکیاں دینے کی آواز نہیں آتی یہاں
گونجا کرتی تھی جو گلیوں میں صدا یاد نہیں
اب مہاجر ہوئے لگتا ہے کہ صدیاں بیتیں
کیسی اب دیس میں چلتی ہے ہوا یاد نہیں
کیوں بھلا مانے کوئی عشق میں پاگل اس کو
جس کو معشوق کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
میں نے کل رات ہی دھویا تھا اسے سجدے میں
کیسے دامن پہ پڑا داغ نیا یاد نہیں
اُس نے ہر موڑ پہ سیدھا تھا دکھایا رستہ
اب وہ کہتے ہیں کوئی راہ نُما یاد نہیں
وہ تو دشمن ہیں نہیں ان سے توقع کوئی
دوستوں کو بھی مرے گھر کا پتہ یاد نہیں
گاہے گاہے سہی اپنوں سے ملا کرتے ہیں
ان سے کیا شکوہ جنہیں رسمِ وفا یاد نہیں
میں نے طارق بڑی حیرت سے انہیں دیکھا ہے
ظلم کرتے انہیں کیا قہرِ خدا یاد نہیں

0
12